Mittwoch, 11. April 2012

فیض سیمینارکے چند مناظر

 زندگی کا یاد گار سفر
جرمنی سے انڈیا کے سفر کی رودادکی پی ڈی ایف فائل
یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں

https://docs.google.com/file/d/0B_xQnk75odj9MU1CWFpZVy12dDA/edit 

.............................................................

فیض سیمینارکے چند مناظر
 
فیض سیمینار افتتاحی تقریب:

پروفیسرڈاکٹر شہناز نبی،
حیدر قریشی،پروفیسر پلب سین گپتا، پروفیسر قاضی جمال حسین،پروفیسر میہیر کمار چکرورتی۔
عقب میں دلیپ رائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





 بیٹھے ہوئے۔
پروفیسرڈاکٹر شہناز نبی
حیدر قریشی
. پروفیسرپلب سین گپتا
پروفیسرمیہیر کمار چکرورتی ۔ پروفیسرقاضی جمال حسین
 فیض سیمینار کا کلیدی مقالہ پیش کرتے ہوئے۔



فیض سیمینار کے پہلے دن افتتاحی تقریر کرتے ہوئے حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔






..............................

 فیض سیمینار کے پہلے دن
 ڈاکٹر خالد سعید،حیدر قریشی،پروفیسرمیہیر کمار چکرورتی،
پروفیسرپلب سین گپتا،فاطمہ حسن،ڈاکٹرپروفیسرشہناز نبی،ڈاکٹر عقیل احمد عقیل
.......................................................................................................

فیض سیمینار کے دوسرے دن اسٹیج پرڈاکٹرفاطمہ حسن اور حیدر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فیض سیمینار کے دوسرے دن حیدر قریشی اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 ڈاکٹر مظہر مہدی فیض سیمینار میں مقالہ پڑھتے ہوئے
 .............................................................................

 ڈاکٹر ندیم احمد فیض سیمینار میں مقالہ پیش کرتے ہوئے
 .............................................................................

پروفیسر باسو دیب برمن فیض سیمینار میں
..............................................................................

 فیض سیمینار کے دوسرے دن حاضرین کا ایک منظر
 .......................................................................

حاضرین کی پہلی صف میں ڈاکٹر خالد سعید،حیدر قریشی اور فہیم انور
حیدر قریشی جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۸ ڈاکٹر خالد سعید کے لیے پریزنٹ کر تے ہوئے۔

..............................................................................


 حاضرین کا ایک اور منظر۔سامنے ڈاکٹر خالد سعید،ڈاکٹر وہاج الدین علوی،
ڈاکٹر مظہر مہدی اور ڈاکٹر حسین الحق تشریف فرما ہیں۔
  ...............................................................................................

فیض سیمینار کے بعد:
ابوذر ہاشمی،حیدر قریشی،۔۔۔۔میتالی چٹرجی،خورشید اقبال

 پروفیسرشہناز نبی،شبیر احمد،نیلو فر،لیلیٰ اسد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 یونیورسٹی سٹوڈینٹس آٹو گراف لے رہے ہیں
 ...............................................
 یونیورسٹی سٹوڈینٹس آٹو گراف لے رہی ہیں۔ساتھ میں حسن آتش موجود ہیں۔ 





یونیورسٹی سٹوڈینٹس آٹو گراف لے رہی ہیں۔ساتھ میں حسن آتش موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


فیض سیمینار کے حاضرین کی ایک جھلک

حاضرین کی پہلی صف میں ڈاکٹر عقیل احمد عقیل،فاطمہ حسن،حسین الحق اور ندیم احمد
......................................................................................................

افتتاحی کاروائی سے پہلے حاضرین کی ایک جھلک۔پہلی رو میں ڈاکٹر قاضی جمال حسین،حیدر قریشی،فہیم انور اور ڈاکٹر عقیل احمد عقیل دکھائی دے رہے ہیں
 .........................................

سیمینار کے وقفہ کے دوران حاضرین گیلری میں فیض کی کتب اور یادگار تصاویر کو دیکھتے ہوئے۔یونیورسٹی کی ایک طالبہ کے ہاتھوں میں جدید ادب کا شمارہ نمبر۱۸ دکھائی دے رہا ہے
...............................................


FAIZ SEMINAR Organised By Asiatic Society Kolkata 
 March 20 & 21
Inaugural Address By Haider Qureshi
افتتاحی تقریر
فیض سیمینار۔ایشیاٹک سوسائٹی،کولکاتا
۲۰؍مارچ ۲۰۱۲ء

حیدر قریشی

 

جناب پروفیسر پلب سین گپتا،پریذیڈنٹ دی ایشیاٹک سوسائٹی،کولکاتا

جناب پروفیسر مِہِر کمار چکرورتی،جنرل سیکریٹری دی ایشیاٹک سوسائٹی،
محترمہ
پروفیسرشہناز نبی صاحبہ،لائبریری سیکریٹری دی ایشیاٹک سوسائٹی، 
اردو کے فیض شناس ادبائے کرام،
اور کلکتہ کی اس خوبصورت تقریب کے جملہ حاضرینِ کرام
 !
نہایت خوشی کی بات ہے کہ گزشتہ برس ۲۰۱۱ء کو سالِ فیض اور فیض صدی کے حوالے سے منانے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا،وہ نئے سال ۲۰۱۲ء میں بھی جاری ہے۔
ایشیاٹک سوسائٹی کولکاتا جو ۱۷۸۴ء سے قائم شدہ ادارہ ہے اور جس کی اپنی ایک تاریخی حیثیت بنتی ہے،اس کی جانب سے بھی فیض سیمینار کے انعقاد کا اہتمام کیا گیا ہے ۔فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے شاعروں،ادیبوں اور دانشوروں میں نہایت اہم مقام کے حامل ہیں۔وہ خود جتنے اچھے ترقی پسند شاعر تھے،اتنی ہی ان کی شخصیت کا بھی ایک جادو تھا۔ان کی شاعری میں مزدور،کسان ،کچلے ہوئے غریب عوام کے ساتھ محبت اور ظلم،جبر،نا انصافی کے خلاف دھیمے احتجاج کی لَے ملتی ہے۔
مختلف ادوار میں پاکستان میں ان کے لیے جینا مشکل کیا جاتا رہا۔جنرل ضیا کے دور میں ان کا جینا اتنا مشکل کر دیا گیا کہ وہ مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے بیروت چلے گئے۔وہاں’’لوٹس‘‘کے مدیر کی حیثیت سے فلسطینی کاز کو تقویت پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔عمر کے آخری حصہ میں پاکستان واپس آگئے اور تھوڑے عرصہ کے بعد وفات پا گئے۔
کولکاتا شہر کا فیض احمد فیض کے سلسلہ میں ایک خاص حوالہ بنتا ہے۔ ’’لوٹس‘‘کی ادارت سے پہلے انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی میں پروفیسر شپ کے حصول کی خواہش ظاہر کی تھی۔اس سلسلہ میں جیوتی باسو کی رضامندی حاصل کر لی گئی تھی لیکن اقبال چئیر کے قیام اور فیض کی تعیناتی میں معمول کی سرکاری کاروائی طویل ہو گئی۔اسی دوران فیض کو ’’لوٹس‘‘ کی ادارت کی پیش کش ہو گئی اور وہ کولکاتا کی بجائے بیروت چلے گئے۔
اس سیمینار میں فیض کے بارے میں سارے محترم مقالہ
نگار اپنے اپنے زاویے سے اپنے مقالات پیش کریں گے۔میں یہاں فیض کی شاعری سے چند تبرکات پیش کرنا چاہوں گا۔اس شاعری کو اپنے لڑکپن سے پڑھتا آرہا ہوں۔اور مجھ جیسے سینکڑوں شعراء فیض کو پسند کرکے اور ان کی شاعری سے اثر لے کر اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرتے رہے ہیں۔
دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
 جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں
 
درِ قفس پہ اندھیرے کی مُہر لگتی ہے
 تو فیضؔ دل میں ستارے اُبھرنے لگتے ہیں
 
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
 وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
اور اب فیض کی نظم ’’شام‘‘پیش کرتا ہوں،جسے ان کے بہت سارے نقادوں نے بھی بے حد پسند کیا ہے۔
 
  
اس طرح ہے کہ ہر اک پیڑ کوئی مندر ہے
کوئی اُجڑا ہوا بے نور پرانا مندر
ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے
چاک ہر بام، ہر اک در کا دمِ آخر ہے
آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پر راکھ مَلے، ماتھے پہ سیندور مَلے
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے
جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سِحر کا دام
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام
اب کبھی شام بجھے گی نہ اندھیرا ہو گا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہوگا

آسماں آس لیے ہے کہ یہ جادو ٹوٹے
چُپ کی زنجیر کٹے، وقت کا دامن چھُوٹے
دے کوئی سنکھ دُہائی ، کوئی پایَل بولے
 
کوئی بُت جاگے، کوئی سانولی گھونگٹ کھولے

میرے لیے اس سیمینار میں شرکت بھی ایک اعزاز تھا،اس کی افتتاحی تقریر کے لیے مجھے موقعہ دے کر میری بہت زیادہ عزت افزائی کی گئی ہے۔اس کے لیے میں ایشیاٹک سوسائٹی کا شکر گزار ہوں۔مجھے امید ہے کہ اس سیمینار میں جو مقالات پیش کیے جائیں گے اور جو تقاریر کی جائیں گی،ان سے فیض شناسی میں پیش رفت ہو سکے گی۔

آپ سب کا بہت شکریہ!
حیدر قریشی
۲۰
؍مارچ ۲۰۱۲ء
۔۔۔کولکاتا
..............................................................................................................
فیض صدی کی ایک جھلک  :  حیدر قریشی اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے  

فیض صدی کی ایک جھلک

حیدر قریشی

 
AN OVERVIEW OF FAIZ CENTENNIAL

The year 2011 has been attributed to Faiz Ahmad Faiz. It was an appreciable and appropriate decision in context of Faiz Centennial. Asiatic Society Kolkata stepped forward in organizing a seminar to make Faiz Centennial a memorial and remarkable event. It is expected that keeping in view the significance of Faiz Centennial mentionable progress can be made. Last year the well-wisher and critics looked at achievements of Faiz from their own perspective. Some articles written on Faiz were also elaborated. An overview of his biography clearly exhibited Faiz as a representative of Marxist ideology. However, his romantic attitudes were also given due importance in those articles.
As a progressive personality Faiz played dual role. He encouraged and expressed sympathy with labors, peasants and suppressed humanity and loved human being from the core of his heart. In some articles written earlier Faiz was not only appreciated in symbolic representation but also referred towards his tautological ideology. Personal life of Faiz was also discussed but many incidents were a sort of repetition. Faiz tried for professorship at Kolkata. Meanwhile, he received an offer as editor of Lotus in Beirut that he accepted and moved to Beirut .
Last year I pointed out an important issue of repetition regarding translation of poems of Rasool Hamza of Dagistan in Urdu. On one hand word by word translation of his seven poems was published in Sare Waadi-e- Sina a collection Faizs poetry and exactly same poems found in poetic collection of Zoe Ansari. The name of latter book is  Manzoom Tarjmay : Zoe Ansari  and it was published from Moscow . The issue created a lot of confusion.
It is expected that learned scholars and progressive researchers would tackle the issue seriously and figure out the right translator. If this task is smoothly carried out, it would be a great achievement for Faiz Centennial. Regarding variable aspects of his poetry or his beneficial personality-undoubtedly Faiz was great asset and blessing for progressive movement.
..........................................................

۲۰۱۱ء کا سال فیض احمد فیض کے نام سے منسوب کیا گیا۔فیض صدی کی مناسبت
 سے یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔اب سال ۲۰۱۲ء میں ایشیاٹک سوسائٹی کولکاتانے اسی تسلسل میں سیمینار کا انعقاد کرکے فیض صدی کومزید بامعنی کرنے کی کاوش کی ہے۔آج کے سیمینار میں گزرے سال کی فیض فہمی کو ایک نظر دیکھتے ہوئے مزید آگے کی طرف دیکھاجا سکتا ہے۔ گزشتہ برس فیض صاحب کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ان کے فن کے حوالے سے بھی خوبصورت باتیں کی گئیں اور ان کی فیض رساں شخصیت کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔فیض صاحب کی شاعری میں ترقی پسند روایت کے مطابق مزدور، کسان اور کچلے ہوئے طبقات کے ساتھ محبت اور ہمدردی کے ساتھ انسان دوستی کی روایت بھی ملتی ہے۔انہیں شعوری طور پر مارکسی اور غیر شعوری طور پررومانوی بھی کہا گیا اور ان کے ہاں انجماد کو بھی نشان زد کیا گیا۔یہ حقیقت ہے کہ فیض صاحب آخر دم تک اپنے مارکسی نظریات پر کاربند رہے لیکن اسی کے دوش بدوش ان کی شخصیت میں صوفیانہ مزاج بھی دریافت کیا گیاجو ظاہر ہے ان کی انسان دوستی کے تناظر میں دیکھا گیا۔فیض صاحب کے ہاں معاشرتی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ظلم،جبر اور نا انصافی کے خلاف دھیمی آنچ جیسے دھیمے احتجاج کی بھی تعریف کی گئی تو فیض صاحب میں جمالیاتی اقدار کی پاسداری کو بھی تحسین کی نظر سے دیکھا گیا۔ان کی زندگی کے بعض نسبتاََ مخفی گوشے بھی تھوڑا بہت سامنے آئے۔فیض صاحب نے ایک زمانہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے کوشش کی تھی۔ان کے تیار کردہ سناپسز کا ریکارڈ بھی منظر عام پر آیا۔ اسے بلا شبہ تبرکات فیض میں شمار کیا جانا چاہیے۔فیض صاحب غیر منقسم ہندوستان میں برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے تھے، آزادی کے بعد جب کبھی انگلینڈ میں اپنے پرانے باس کو ملنے جاتے تو فوجی وردی پہن کر جاتے۔دوسری طرف بہت زیادہ مشہور واقعہ فوجی بغاوت کا راولپنڈی سازش کیس ۔ ۔۔اس ناکام انقلاب میں فیض صاحب کا کیا اور کتنا کردار تھا،اس کا بھی انقلابی انداز میں ذکر رہا۔ کولکاتاکے ساتھ فیض صاحب کا تعلق مغربی بنگال کی مقتدر سیاسی جماعت سے نظریاتی ہم آہنگی کی حد سے کچھ آگے تھا۔فیض صاحب کو پاکستان سے نکلنا پڑا تو انہوں نے کولکاتا میں پروفیسر شپ کے حصول کے لئے کوشش کی۔اسے کولکاتا والوں نے اپنے لئے اعزاز جانا۔ کولکاتا یونیورسٹی میں اقبال چئیر قائم کی جا رہی تھی،فیض صاحب کو اس کا پروفیسر بنانا طے ہوا۔ جیوتی باسو کے ساتھ اس حوالے سے کوئی رابطہ بھی ہوا۔ لیکن پھر فیض صاحب کو بیروت میں فلسطینی کاز کو تقویت دینے والے رسالہ ’’لوٹس‘‘کی ادارت کی پیش کش ہو گئی اور وہ وہاں چلے گئے۔’’لوٹس‘‘کے فنڈز بند ہوئے تو رسالہ بھی بند ہو گیا اور فیض صاحب پاکستان واپس چلے گئے۔پاکستان واپسی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی فیض صاحب وفات پا گئے۔یہ ساری باتیں اور اسی طرح کی اور باتیں گزشتہ برس کی کتابوں اور مضامین میں سامنے آئیں۔فیض صاحب کی ذاتی و ادبی شخصیت زیادہ خوبصورتی کے ساتھ ابھر کر سامنے آئی۔
ناقدین کرام کی جانب سے فیض صاحب کے کلام میں شروع میں ابھرنے والی نئی اور انوکھی تشبیہات و علامات کی توصیف کی گئی تو بعد میں ان کے ہاں در آنے والی اس تکرار کی نشان دہی بھی کی گئی کہ جس میں وہ اپنے لکھے کو دہرانے کے ساتھ،ماضی کے اہم اساتذہ کو بھی اپنے کلام میں فراخدلی سے کاماز کے بغیر دہرانے لگے تھے۔فیض صاحب پر بے شمار نیا لکھا گیاتو اس کے ساتھ ان کے بارے میں لکھے گئے پرانے مگر اہم مضامین کو بھی دوبارہ یکجا کرکے شائع کیا گیا۔ فیض صاحب کی شاعری کی تعریف و توصیف میں جو بے شمار لکھا گیا،اس میں چند مستثنیات کو چھوڑ کر زیادہ تر ایک جیسی باتوں کو دہرایا گیا جس نے یکسانیت سی طاری کی۔دراصل فیض صدی کی مناسبت سے بیشتر ایسے لوگوں نے بھی کتابیں لکھ ڈالیں،جن کے پیش نظر فیض صاحب پر کوئی سنجیدہ اور با مقصد کام کرنا نہیں تھا،بلکہ فیض صاحب جیسی فیض رساں شخصیت کی صدی کواپنی ذاتی شہرت کے لئے بیساکھی کے طور پر استعمال کرنا تھا۔چنانچہ ایسے لوگ پورا سال اپنی کتابیں سر پر اٹھائے ہوئے اس طرح خود ہی ان کی تقریبات کراتے رہے کہ لگتا تھا انہوں نے فیض صاحب پر نہیں لکھا بلکہ فیض صاحب نے ان پر کتاب لکھ دی ہے۔اس قسم کے بعض منفی رویوں کے باوجود مجموعی طور پر فیض صاحب کی ترقی پسند شخصیت کی عظمت کا خلوصِ دل کے ساتھ نہ صرف اعتراف کیا گیابلکہ اسے مناسب خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا۔
گزشتہ برس ایک بہت ہی چھوٹا سا کام مجھ سے بھی سرزدہوا۔ میں نے اپنے ایک مضمون’’رسول حمزہ کی نظموں کے تراجم:اصل ترجمہ نگار کون؟‘‘ میں ایک انوکھے توارد کی نشان دہی کی تھی۔فیض احمد فیض کے شعری مجموعہ’’سرِ وادئ سینا‘‘کا ذکر کرتے ہوئے میں نے لکھا تھاکہ ’’سرِ وادئ سینا‘‘کے:
’’آخرمیں ’داغستان کے ملک الشعراء رسول حمزہ کے افکار‘ کے نام سے الگ سیکشن بنا کر ان کی ۹ نظموں کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ان میں سے دو نظموں ’’آرزو‘‘ اور ’’ایک چٹان کے لیے کتبہ‘‘ کوچھوڑ کر باقی سات نظموں کا ترجمہ حیرت انگیز طورپرظ ۔انصاری کے ترجمہ سے لفظ بلفظ ملتا ہے۔ ظ ۔انصاری کی کتاب ’’منظوم ترجمے: ظ انصاری‘‘ کے نام سے دارالاشاعت ماسکو کی جانب سے سال ۱۹۷۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ساتوں نظموں میں سے صرف ایک نظم جس کا عنوان فیض صاحب نے ’’بھائی ‘‘لکھا ہے، اس نظم کے چوتھے مصرعہ میں ’’تن پہ ردائے ماتم‘‘کی جگہ ’’تن میں ردائے ماتم‘‘ درج ہے۔ لفظ’’میں‘‘ اور’’ پہ‘‘کے فرق کے علاوہ باقی ساتوں نظمیں لفظ بلفظ ایک جیسی ہیں۔‘‘
یہاں بڑی صراحت کے ساتھ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ فیض صاحب کی ادبی عظمت کسی دوسرے شاعر کی نظموں کے ترجمہ نگارہونے کی بنا پر نہیں ہے۔ان کی اپنی پہچان ان کی اپنی شاعری ہے۔تاہم مذکورہ ترجمہ شدہ نظموں کا معاملہ تحقیق طلب ضرور ہے۔میں نے اس سلسلہ میں ماسکو میں اردو کی معروف استاد اور فیض صاحب پر بڑا اہم اور بنیادی نوعیت کا کام کرنے والی ڈاکٹر لدمیلا وسیلئیوا سے رابطہ کیا اور انہیں اس صورتِ حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے بھی اپنی حیرانی ظاہر کرتے ہوئے میرے نام اپنی ای میل میں لکھا کہ دارالاشاعت ماسکو کے کسی مدیر یا منتظم کی غلطی سے شاید یہ ترجمے دونوں کتابوں میں لگ گئے ہوں۔انہوں نے یہ بھی لکھا کہ:
’’پکی بات ہے کہ تراجم فیض صاحب کے ہیں۔اور بے شک ظ انصاری خود فیض کے تراجم پر اپنا نام نہیں لکھ سکتے تھے۔۔۔۔۔لیکن مجھے بہت حیرت ہے کہ اس بات پر خود ظ صاحب نے شور کیوں نہیں مچایا تھا؟وہ تو اس سے بہت چھوٹی باتوں پر یہاں طوفان برپا کرتے تھے۔ہر صورت میں انہیں یہ کتاب دیر یا سویر ملی ہی تھی اور انہوں نے اس غلطی کو ضرور دیکھا ہو گا۔ہاں میرے لیے یہی ایک پہیلی ہے۔‘‘ (ماسکو سے ڈاکٹر لدمیلا کی ای میل بنا م حیدر قریشی۔۱۷؍ مئی ۲۰۱۱ء سے اقتباس)
یہ پہیلی ابھی تک پہیلی ہے،کیونکہ جہاں فیض صاحب کو کسی کی نظموں کے ترجمے کرکے کوئی اہمیت نہیں حاصل کرنا تھی ایسے ہی ظ انصاری صاحب جیسے ماہر ترجمہ نگار کو بھی فیض صاحب کے تراجم اپنے نام سے چھاپنے کی ضرورت نہیں تھی کہ ان کے لیے تو ان ساری نظموں کاترجمہ کرلینا ایک دن کا کام تھا۔اگر ڈاکٹر لدمیلا کے حسنِ ظن کے مطابق دارالاشاعت ماسکو کے کسی مدیر یا اشاعتی منتظم سے غلطی ہوئی ہے تو فیض صاحب اور ظ صاحب کی دونوں کتابوں میں ایک جیسے تراجم کے چھپ جانے کے بعد غلطی کا احساس تو ہونا چاہیے تھااور اس کی تلافی اور وضاحت بھی ہو جانا چاہیے تھی۔
’’ سالِ فیض ‘‘کی مناسبت سے بھی اور’’ فیض صدی‘‘ کے حوالے سے بھی فیضیات سے دلچسپی رکھنے والے محققین اور ناقدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تواردنما غلطی کے سلسلہ میں علمی سطح پر اور سنجیدگی کے ساتھ تحقیق کریں۔سوویت یونین کے زمانے میں ماسکو کے شعبہ اردوسے تعلق رکھنے والے احباب ابھی زندہ موجود ہیں،ان سے مدد لی جا سکتی ہے۔ظ۔ انصاری صاحب کے ماسکو میں قیام کے زمانہ کا احاطہ کیا جا سکتا ہے اور یہ خرابی کیسے رونما ہو گئی اس کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔’’سرِ وادئ سینا‘‘ اور ’’منظوم ترجمے: ظ انصاری‘‘ کی اشاعت کے باوجود دونوں طرف خاموشی کیوں رہی اس کا بھی پتہ چلنا چاہیے۔اس کام کے لیے فیض صاحب سے جذباتی محبت کرنے والوں سے زیادہ سنجیدہ تحقیق میں دلچسپی لینے والے ترقی پسند محققین بہتر کام کر سکیں گے اور یہ ان کی علمی و ادبی ذمہ داری ہے۔یہ کام علمی و تحقیقی تقاضوں کے مطابق ہو جائے تو فیض صدی پر موجودیہ علمی و تحقیقی قرض اتر جائے گا۔
فیض صاحب میرے جیسے ہزاروں لکھنے والوں کے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔ان کی شاعری پر ہر زاویے سے اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ میرے لیے فی الوقت کچھ نیا کہنا ممکن نہیں اور پرانے لکھے کو دہرانا اب کلیشے کی حد تک آچکا ہے،سو ان کی شاعری میں سے اپنی پسند کا ایک مختصراور سرسری سا انتخاب پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔پہلے فیض صاحب کے ابتدائی مجموعوں کی غزلوں کے چند اشعار

:
  تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے 
 تلاش میں تھی سحر بار بار گزری ہے
 
صبا نے پھر درِ زنداں پہ آکے دی دستک
سحر قریب ہے،دل سے کہو نہ گھبرائے

ہم سے کہتے ہیں چمن والے،غریبانِ چم
ن!
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

اُٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں

دل سے تو ہر معاملہ کرکے چلے تھے صاف ہم 
کہنے میں اُن کے سامنے بات بدل بدل گئی

دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے 
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے 
ستارۂ سحری ہمکلام کب سے ہے

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے 
 تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
آخر میں فیض صاحب کی نظم ’’کچھ عشق کیا،کچھ کام کیا‘‘ پیش کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی کرتے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا ،کچھ کام کیا
کام عشق کے آڑے آتا رہا
اور عشق سے کام الجھتا رہا
پھر آخر تنگ آکر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا
۱۹۷۶ء

فیض صاحب کی شاعری کے نشیب و فراز ہوں یا ان کی فیض رساں شخصیت کے،ایک بات اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ فیض صاحب ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی عطا ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


روزنامہ عکاس کولکاتا نے فیض سیمینار کی دو روزہ رپورٹ پورے صفحہ پر تصاویر سے مزین کر کے شائع کی تھی۔حیدر قریشی اس صفحہ کو پڑھتے اور دیکھتے ہوئے۔
 

شعبہ اردو کلکتہ یونیورسٹی کاٹیگور سیمینار

شعبہ اردو کلکتہ یونیورسٹی کاٹیگور سیمینار



ٹیگور سیمینار پریذیڈیم
ڈاکٹر معین الدین جینا بڑے،ڈاکٹر
پروفیسرشہناز نبی،حیدر قریشی اور
 پروفیسر ممتا رائے ،پرو وائس چانسلر کلکتہ یونیورسٹی
.....................................................................................................


ٹیگور سیمینار پریذیڈیم
ڈاکٹرمعین الدین جینا بڑے،پروفیسرپلب سین
گپتا
،حیدر قریشی اور
 پروفیسرڈاکٹر شہناز نبی
 ......................................................................

 پروفیسر پلب سین گپتا ٹیگور کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں
 .....................................................................................................
  پروفیسر شہناز نبی اور ممتا رئے کسی خوشگوار صورتِ حال میں
 ...............................................................................................

 کلکتہ یونیورسٹی کی پرووائس چانسلرممتا رئے ،ٹیگور کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔ساتھ پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی بیٹھی ہیں۔
.................................................................................................

ڈاکٹر معین الدین جینا بڑے،انور ظہیر،حیدر قریشی اور ڈاکٹر عقیل احمد عقیل

................................................................................
 
سیمینار میں معروف ادیب انور ظہیر اپنی کتاب حیدر قریشی کو پیش کرتے ہوئے

............................................................................ 


سیمینار میں حیدر قریشی کوڈاکٹرابوبکر جیلانی پھولوں کا تحفہ دے رہے ہیں


.............................................................................. 


پروفیسرڈاکٹر شہناز نبی،انور ظہیر اور حیدر قریشی
......................................................................

 حیدر قریشی ٹیگور سیمینار کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے


فاطمہ حسن اور حیدر قریشی کے اعزاز میں جلسۂ استقبالیہ و مشاعرہ

فاطمہ حسن اور حیدر قریشی کے اعزاز میں جلسۂ استقبالیہ و مشاعرہ
22.3.2012 مسلم انسٹی ٹیوٹ کولکاتا


مسلم انسٹی ٹیوٹ کولکاتا کے سلیمان خورشید ،
فاطمہ حسن اور حیدر قریشی کا استقبال کرتے ہوئے


حیدر قریشی کے ہاتھوں ایک کتاب کی رونمائی کے لیے
  سلیمان خورشیدکتاب دیتے ہوئے
..........................................................................

حیدر قریشی کے ہاتھوں ایک کتاب کی رونمائی 

..........................................................................
مختلف ادیبوں کی جانب سے کتابوں کے تحائف پیش کیے گئے
 ............................................
  فراغ روہوی کتاب کا تحفہ دینے کے بعد سرگوشی میں کچھ کہہ رہے ہیں
.................................................

Dienstag, 10. April 2012

شِب پور میں حیدر قریشی سے ایک ملاقات

  شِب پورمیں حیدر قریشی سے ایک ملاقات
 
ایم نصراللہ نصر تقریب میں حیدر قریشی کو پھول پیش کر رہے ہیں



حیدر قریشی پھولوں کے ساتھ

........................................................................................................
 
خورشید اقبال کی جانب سے ڈاکٹر صبیحہ خورشید کو پھول پیش کیے جا رہے ہیں

........................................................................................................ 
خورشید اقبال کی جانب سے حیدر قریشی کو شال کا تحفہ






   ..................................................................................................





قیصر شمیم،حیدر قریشی،ڈاکٹر صبیحہ خورشید،
شاہد یوسفی
،کریم رضا مونگیری
...........................................................................................................

 
خورشید اقبال اظہارِ خیال کرتے ہوئے

.............................................................................................
 
ایم نصراللہ نصر اظہارِ خیال کرتے ہوئے

 ........................................................................................................... 



ڈاکٹر صبیحہ خورشید اظہارِ خیال کرتے ہوئے

 .........................................................................................................


کولکاتا کے مضافات میں مقیم شعراء و ادباء کی جانب سے

حیدر قریشی سے ایک ملاقات کا اہتمام کرنے والے حاضرین

 .....................................................................................................




حیدر قریشی اپنی تحریروں کے حوالے سے کیے گئے

 مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے